جوں فوج کہ مفتوح ہو زنجیر میں آوے

جوں فوج کہ مفتوح ہو زنجیر میں آوے
الفاظ کا لشکر مری تحریر میں آوے


اک خاص عنایت ہے کہ دیتے نہیں مجھ کو
وہ درد کہ جو پنجۂ تدبیر میں آوے


یکسر رگ منصور کی ہمت سے پرے ہے
وہ علم کہ اک عرصۂ تقطیر میں آوے


جو چاہے بھرے میں نے مصور سے کہا تھا
کچھ رنگ محبت مری تصویر میں آوے


وہ بات خوشا دیتا ہے دل جس کی گواہی
یہ کیا کہ کہو اگلی اساطیر میں آوے


جو حکم تمہارا ہے وہ واجب ہے بلا شک
جو عرض ہماری ہے وہ تعزیر میں آوے


ہے گرچہ بہت میرے لیے خواب کی دنیا
کچھ اور مزہ خواب کی تعبیر میں آوے


جس پاس مداوا نہیں کچھ آب و ہوا کا
لازم ہے مرے حلقۂ تقریر میں آوے


ممکن نہیں آدم کے لیے شان خدائی
ہاں یوں کہ مگر آیۂ تطہیر میں آوے