جس میں دل کش وفا کا پھول نہیں
جس میں دل کش وفا کا پھول نہیں
ایسی چاہت مجھے قبول نہیں
تو جسے روند کے گزر جائے
میں تری راہ کی وہ دھول نہیں
کیوں ہو لاحق مجھے پشیمانی
عشق کرنا تو کوئی بھول نہیں
میری خوشیاں بھی اس کے ساتھ گئیں
کون کہتا ہے میں ملول نہیں
وہ محبت کا راستہ کب ہے
جس میں پتھر نہیں ببول نہیں
جیسے گزرے گزار دے اس کو
زندگی مختصر ہے طول نہیں
شاعری خود چمک اٹھے گی سحرؔ
خود نمائی میرا اصول نہیں