جھوٹا ہے جانتا ہوں مگر اس کے باوجود
جھوٹا ہے جانتا ہوں مگر اس کے باوجود
رونق لگائے رکھتا ہے اک خواب کا وجود
اس نے کتاب کھول کے رکھ دی ہے شیلف میں
میری قبائے وصل کو کب مل سکا وجود
اس بات سے ہی دیکھ لیں قربت ہمارے بیچ
پہنا ہے میں نے روح پہ اس شخص کا وجود
پھر میں کروں نہ ناز کیوں اپنی بڑائی پر
یزداں نے اپنے ہاتھ سے سینچا مرا وجود
اس میں ہر ایک بات ہے پر بولتا نہیں
پایا ہے میرے یار نے تصویر سا وجود
کیسے کرے گا سامنا دنیا کا اب کمال
ذلت کی گہری کھائی میں پھینکا گیا وجود