گنگ ہیں ساری زمینیں آسماں حیرت زدہ
گنگ ہیں ساری زمینیں آسماں حیرت زدہ
رفتگاں ششدر سبھی آئندگاں حیرت زدہ
چوس لیتی ہے زمیں پانی جہاں ہوں نفرتیں
خشک ہوتی نہر پہ مت ہوں کساں حیرت زدہ
کون گھر کا ہے یہ دھوون کس کی ہے یخ بستگی
برف ہوتی اس ندی کا سب دھواں حیرت زدہ
اس تحیر خیز شہر نور کی ہر شے عجب
ہر یقیں حیرت زدہ ہر اک گماں حیرت زدہ
داخلے پر تختیاں ہیں جن پہ کندہ نام ہیں
کون کیسے کس طرح اور ہے کہاں حیرت زدہ
سنگ مرمر سے بنا جنگل جہان آرزو
دفتری لہجہ لیے میں اک جواں حیرت زدہ
کس طرح کا درس مجھ کو دے رہا ہے آفتاب
صحن مکتب میں کہیں ہے کہکشاں حیرت زدہ
ذکر تھا ملفوف کن کا آسماں کی بات تھی
سن رہا تھا شہر سارا داستاں حیرت زدہ