جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے
جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے یوں ترے دشت نوردوں کو چمن کھینچتا ہے کس کی آہیں یوں سر دشت طلب گونجتی ہیں کون ویران مناظر سے تھکن کھینچتا ہے حرف آ آ کے بجاتے ہیں مرا دروازہ شعر ہو ہو کے مرے دل کی گھٹن کھینچتا ہے بوجھ ڈھونا ہے بہر طور ہو جیسے تیسے ورنہ یوں کون بصد شوق بدن ...