جب اس کے وصل کی خواہش جوان ہو رہی تھی
جب اس کے وصل کی خواہش جوان ہو رہی تھی
وہ شاہزادی یقیں سے گمان ہو رہی تھی
وہ میرے پیار سے منکر ہوئی تھی اس پل جب
قسم اٹھا رہا تھا میں اذان ہو رہی تھی
میں اس سے عشق پہ گھنٹوں سے بحث کر رہا تھا
نہ میرے اشک رکے نہ تھکان ہو رہی تھی
جدا ہوئی تھی وہ جب دل پہ وار کرنے کو
فلک پہ قوس قزح بھی کمان ہو رہی تھی
وہ لڑکی کتنی حقیقت پسند تھی عمارؔ
ہنسی خوشی سے جو خود داستان ہو رہی تھی