آنکھ اشک بہانے پہ ہے مامور من العشق
آنکھ اشک بہانے پہ ہے مامور من العشق
اور ہونٹ ہیں چپ رہنے پہ مجبور من العشق
دامن پہ ترے داغ محبت نہیں اک بھی
لگتا ہے میاں تو مجھے مقہور من العشق
چلتی ہے اٹھا کر تری خوشبوئے بدن کو
میری تو ہر اک سانس ہے مزدور من العشق
مجہول ہے مطعون ہے ملعون ہے وہ شخص
جو ہجر سے گھبرا کے ہو مفرور من العشق
عمارؔ کا ایمان ہے چاہت کے جہاں میں
ہوتا ہے وہی جو بھی ہو منظور من العشق