اک لڑکی کے رخ پر کیا بے زاری ہے

اک لڑکی کے رخ پر کیا بے زاری ہے
پھولوں کو بھی کھلنے میں دشواری ہے


عشق میں جب بھی کوئی شخص اجڑتا ہے
لگتا ہے اب اگلی میری باری ہے


اس سے پوچھو خوابوں کا اب کیا ہوگا
دن میں جس نے مجھ پر نیند اتاری ہے


مرشد بس میں خود سے نفرت کرتا ہوں
مرشد مجھ کو سوچنے کی بیماری ہے


ڈوب رہے ہیں لوگ سمندر میں عمارؔ
اس نے ان آنکھوں کی نقل اتاری ہے