کیسا ڈر اشکوں کی نقل مکانی پر
کیسا ڈر اشکوں کی نقل مکانی پر
ہجر کا پہرہ ہے آنکھوں کے پانی پر
اس کو ہنستا دیکھ کے پھول تھے حیرت میں
وہ ہنستی تھی پھولوں کی حیرانی پر
چشمے کے پانی جیسا شفاف ہوں میں
داغ کوئی دل میں ہے نہ پیشانی پر
گرہ لگا کر چادر ڈالی مصرعے کی
میں نے دوسرے مصرعے کی عریانی پر
والعصر انا الانسانا کا ورد کیا
وار دی شہروں کی رونق ویرانی پر