بقا کا اور فنا کا معاملہ ہے حضور

بقا کا اور فنا کا معاملہ ہے حضور
چراغ اور ہوا کا معاملہ ہے حضور


میں اس کو مانوں نہ مانوں مجھے ملے نہ ملے
یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے حضور


یہ میری تجھ سے محبت اگر خطا ہے تو پھر
یہاں پہ حسن خطا کا معاملہ ہے حضور


یہ طے ہوا بھی اگر ہوگا نوک نیزہ پر
یہ ایک کرب و بلا کا معاملہ ہے حضور


ہے ایک دل کو اجازت یہاں دھڑکنے کی
ہتھیلی اور حنا کا معاملہ ہے حضور


تبھی تو سچا خدا بھی خموش ہے عمارؔ
یہ آستیں کا عصا کا معاملہ ہے حضور