عشق کی بارگاہ تک پہنچا
عشق کی بارگاہ تک پہنچا
حسن جائے پناہ تک پہنچا
دل کے ہاتھوں وہ شوخ بھی آخر
میرے حال تباہ تک پہنچا
اب تو اترا ہوں ترک الفت پر
درد فکر و نگاہ تک پہنچا
عاصیوں سے ہے مجتنب واعظ
زہد حد گناہ تک پہنچا
تیشۂ کوہکن کا وار آخر
سطوت کج کلاہ تک پہنچا
جب بھی تخریب دیں کی بات چلی
سلسلہ خانقاہ تک پہنچا
ڈھونڈ کر حشر میں کرم اس کا
میرے فرد سیاہ تک پہنچا