اس بھول میں نہ رہ کہ یہ جھونکے ہوا کے ہیں

اس بھول میں نہ رہ کہ یہ جھونکے ہوا کے ہیں
تیور تو ان کے دیکھ ذرا کس بلا کے ہیں


کیا ماجرا ہے اے بت توبہ شکن کہ آج
چرچے تری گلی میں کسی پارسا کے ہیں


اس چشم نیم وا کی ہے مستی شراب میں
ساغر میں سارے رنگ اسی کی حیا کے ہیں


ہستی کی قید کاٹتے رہتے ہیں رات دن
کیا جانے کتنے سال ہماری سزا کے ہیں


اے شیخ کیا ڈراتا ہے میدان حشر سے
ہم بندگان خلق بھی بندے خدا کے ہیں


ہے خوف کچھ تو موج تلاطم کا بھی مگر
ہم لوگ زخم خوردہ بت ناخدا کے ہیں


رہنا پڑا ہے دور کراچی سے ورنہ ہم
اس شہر بے مثال کے عاشق سدا کے ہیں


رائج رہیں گے شہر سخن میں ہمارے شعر
سکے ہیں یہ کھرے کہ یہ قصے وفا کے ہیں


رکھتا ہے اک سلیقۂ اظہار مختلف
سب معترف خلیلؔ کی طرز ادا کے ہیں