اس عہد میں سنا ہے مجبور آدمی سے

اس عہد میں سنا ہے مجبور آدمی سے
رہتا ہے آدمی بھی اب دور آدمی سے


یہ راز کب رہا ہے مستور آدمی سے
زردار آدمی ہے مزدور آدمی سے


عزم خودی سلامت مشکل بھی کوئی شے ہے
اکثر ہوئی مشیت مجبور آدمی سے


کھلتی گئیں ہیں جب سے گمراہیوں کی راہیں
ہوتی گئی ہے منزل خود دور آدمی سے


کہتا ہے اور ہی کچھ فقدان آدمیت
ویسے تو ہے یہ دنیا معمور آدمی سے


ہم جنس کے لہو سے کھیلے گا کون ہولی
حیرت کہ یہ چلا ہے دستور آدمی سے


جب آدمی ہی بننا مشکل ہے آدمی کا
کیونکر خدا بنا تھا منصور آدمی سے


گمنام آدمی کا دنیا میں کارنامہ
منسوب ہو رہے گا مشہور آدمی سے


اس دور بے بسی میں یہ حال ہے مبارکؔ
جینے کا چھن چکا ہے مقدور آدمی سے