اقبالؒ

ہوش کا دارو ہے گویا مستئ تسنیم عشق

اقبال

سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلستان، مصر، فلسطین، افغانستان اور برٹش انڈیا کے طول و عرض کے اسفار اور اعلیٰ سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور عالمی کانفرنسز میں شرکت ۔۔۔ اس دور میں جب ہوائی جہاز عام نہیں تھے ۔۔۔ یہ بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ کابل یونیورسٹی کے قیام سے موتمرِ عالمِ اسلامی اور الہٰ آباد اجلاس سے گول میز کانفرنس تک ۔۔۔ اقبال کہاں کردار کے غازی نظر نہیں آتے ؟

مزید پڑھیے

علامہ اقبال کی پیام مشرق سے فارسی نظم کا اردو ترجمہ

اقبال

میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، ۔ تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں ۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے ۔ (لیکن ) تیرے اندر جو داغ ہے اس کی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔

مزید پڑھیے

شکوہِ اقبال: کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

اقبال

شکوہ میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ان کی موجودہ حالت کا دوسری اقوام سے موازنہ کیا ہے، پھرمسلمانوں کی اس بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ اہلِ توحید پر اب وہ پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں، جبکہ وہ آج بھی خدا کے نام لیوا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں ،آج بھی اُن کے دلوں میں دینِ اسلام کے لیے زبردست جوش و جذبہ موجود ہے۔

مزید پڑھیے

علامہ اقبال کی فارسی نظم 'از خوابِ گراں خیز' مع ترجمہ

اقبال

'زبور عجم' کا علامہ اقبال کے کلام میں ایک اپنا مقام ہے، اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے۔ زبورِ عجم عمل کی تلقین سے بھری پڑی ہے۔ اس نظم میں ٹیپ کا مصرع (بار بار آنے والا) 'از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز' (گہری نیند سے اٹھ) ہے۔ یہ خوبصورت اور لازوال نظم ہے۔

مزید پڑھیے

نومبر کی سرد سی شام میں تھکن سے چور: مفکر پاکستان کا پاکستان

آج نومبر کی سرد سی شام میں وہ خود کو بہت تنہا محسوس کر رہا تھا۔ اس کا انگ انگ تھکاوٹ سے چور تھا۔ یہ تھکاوٹ لگاتار محنت کی تھی نہ ہی بڑھاپے کی نشانی تھی بلکہ یہ تھکاوٹ مایوسی کی تھی، یہ تھکاوٹ اپنے مقصد کو نہ پانے کی تھی وہ مقاصد جو اس کے لیے آکسیجن تھے ۔

مزید پڑھیے

تجھ سے ہوا آشکار، بندہ مومن کا راز: اقبال کی شخصی خوبیاں

گرمیوں میں گھر پر صرف دھوتی اور بازو والی بنیان پہنے رہتے ۔ اکثر یہ دونوں کپڑے کافی میلے ہو جاتے لیکن وہ اپنے حال میں مست ، نشست گاہ میں لوگوں کے درمیان بیٹھے حکمت کے خم لنڈھاتے رہتے ۔ والدۂ جاوید کئی کئی بار ان کی توجہ میلے کپڑوں کی طرف مبذول کراتیں لیکن وہ ٹال جاتے ۔ آخر جب وہ زیادہ ہی مصر ہوتیں تو بڑی بے نیازی سے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے : ’’ کوئی ایسے میلے تو نہیں ہیں ، البتہ اگر تمھاری یہی خوشی ہے تو لاؤ بدل ہی لیتے ہیں۔ ‘‘

مزید پڑھیے

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف:فکر اسلامی کی تشکیل جدید میں اقبال کا حصہ

علامہ اقبال ان ممتاز مفکرین ومصلحین میں سے ہیں جنھوں نے بیسوی صدی میں مشرق ومغرب کو اپنے فکر وخیالات سے ہلا کر رکھ دیا۔ وہ صرف انقلابی و فکری شاعر ہی نہ تھے بلکہ ایک ایسے جید اسلامی مفکر اور اسکالر تھے جن کو بہت سارے علوم ونظریات پربہت اچھی نگاہ اور درک حاصل تھا ۔

مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3