اقبال کی غزل گوئی: ابتدائی دور کی غزلوں کی روشنی میں
علامہ اقبال کی شاعری میں نظم کو زیادہ جگہ ملی لیکن وہ ابتدائی دور میں غزل اور وہ بھی عشقیہ غزل کی طرف رجحان رہا۔۔۔ان کے پہلے شعری کلام بانگ درا میں ایک سو سولہ نظمیں اور ستائیس غزلیں۔۔۔۔
علامہ اقبال کی شاعری میں نظم کو زیادہ جگہ ملی لیکن وہ ابتدائی دور میں غزل اور وہ بھی عشقیہ غزل کی طرف رجحان رہا۔۔۔ان کے پہلے شعری کلام بانگ درا میں ایک سو سولہ نظمیں اور ستائیس غزلیں۔۔۔۔
جب علامہ اقبال کو حکیم الامت ، مفکر پاکستان یا مصور پاکستان کے القابات سے پکارا جائے تو بہت خوشی سے قبول کیا جاتا ہے لیکن جب ان کو ایک اعلیٰ پائے کے شاعر کے طور پر پیش کیا جائے تو اسے مانا تو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی دبی سی زبان میں یہ ذکر کرنا ضروری گردانا جاتا ہے کہ "اقبال کی اصل عظمت ان کی فکر میں پنہاں ہے، شاعری کو انہوں نے محض ذریعہ اظہار بنایا" تو صاحب! انہوں نے شاعری کو ہی کیوں ذریعہ اظہار بنایا، نثر کیوں نہیں ؟ وہ بہترین شاعری کیسے کرلیتے تھے۔۔۔آئیے اس رزا سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
علامہ کی مستقبل کی پیش گوئی کرتی نظم: لالہ صحرائی
علامہ اقبال کی اولین غزلیں
اقبال کی ابتدائی غزل
علامہ اقبال کی طالب علمی کے دور کی غزل
برصغیر کے مسلمانوں میں عقابی روح بیدار کرنے والا اور انہیں ستاروں سے آگے کے جہانوں کا پتہ بتانے والا داناۓ راز بستر علالت پر تھا. مرض میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے کمرے میں میاں محمد شفیع، ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اختر رنجیدہ مغموم ان کی پل پل بگڑتی ہوئی حالت کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ ان اصحاب کے علاوہ اقبال کا باوفا خادم علی بخش بھی ان کی خدمت میں موجود تھا۔ لگ بھگ رات کے 2 بجے ہوں گے جب اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کمرے میں داخل ہوئے۔ اقبال نے نحیف سی آواز میں پوچھا " کون ہے؟ "
چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں ۔ اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا کوئی فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ ؛ دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت ؛ تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
ہمارے نصاب میں اقبال کو جس طرح شامل کیاگیا،اس سے طالب علم صرف دو باتیں جان پاتا ہے۔ایک یہ کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔دوسرا یہ کہ وہ شاعر تھے۔ اقبال اس کے علاوہ بھی کچھ تھے،وہ ساری زندگی اس سے بے خبر رہتا ہے۔کیا انہوں نے نثر میں بھی کچھ لکھا؟ ان کے خطبات کی اسلامی فکر کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے،وہ کبھی نہیں جان سکتا۔علامہ اقبال نے جب علی گڑھ کے طلبہ کے سامنے یہ خطبات پڑھے تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن،صدر شعبہ فلسفہ نے اپنے خطبہ صدارت میں اپنے تاثرات بیان کیے۔
سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلستان، مصر، فلسطین، افغانستان اور برٹش انڈیا کے طول و عرض کے اسفار اور اعلیٰ سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور عالمی کانفرنسز میں شرکت ۔۔۔ اس دور میں جب ہوائی جہاز عام نہیں تھے ۔۔۔ یہ بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ کابل یونیورسٹی کے قیام سے موتمرِ عالمِ اسلامی اور الہٰ آباد اجلاس سے گول میز کانفرنس تک ۔۔۔ اقبال کہاں کردار کے غازی نظر نہیں آتے ؟