از خواب گراں خیز

'زبور عجم' کا علامہ اقبال کے کلام میں ایک اپنا مقام ہے، اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے۔ زبورِ عجم عمل کی تلقین سے بھری  پڑی ہے۔
اس نظم میں ٹیپ کا مصرع (بار بار آنے والا) 'از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز' (گہری نیند سے اٹھ) ہے۔ یہ خوبصورت اور لازوال نظم ہے۔

اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھرغموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، (بہت) گہری نیند سے اٹھ۔

 

خورشید کہ پیرایہ بسیمائے سحر بست
آویزہ بگوشِ سحر از خونِ جگر بست
از دشت و جبَل قافلہ ہا، رختِ سفر بست
اے چشمِ جہاں بِیں، بہ تماشائے جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز


سورج، جس نے صبح کے زیور سے ماتھے کو سجھایا، اس نے صبح کے کانوں میں خونِ جگر سے بُندہ لٹکایا، یعنی صبح ہو گئی، بیابانوں اور پہاڑوں سے قافلوں نے سفر کے لیے سامان باندھ لیا ہے، اے جہان کو دیکھنے والی آنکھ، تُو بھی جہان کا نظارہ دیکھنے کے لیے  اٹھ، یعنی تو بھی اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔

 

خاور ہمہ مانندِ غبارِ سرِ راہے است
یک نالۂ خاموش و اثر باختہ آہے است
ہر ذرّۂ ایں خاک گرہ خوردہ نگاہے است
از ہند و سمر قند و عراق و ہَمَداں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
مشرق (خاور) سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)۔ (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند (وسطی ایشیا) و عراق (عرب) اور ہمدان(ایران، عجم) سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

 

دریائے تو دریاست کہ آسودہ چو صحرا ست
دریائے تو دریاست کہ افزوں نہ شُد وکاست
بیگانۂ آشوب و نہنگ است، چہ دریاست؟
از سینۂ چاکش صِفَتِ موجِ رواں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز


تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو صحرا کی طرح پرسکون  ہے۔ تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو بڑھا تو نہیں البتہ کم ضرور ہو گیا ہے، یہ تیرا دریا کیسا دریا ہے کہ وہ طوفانوں اور مگرمچھوں (کشمکشِ زندگی) سے بیگانہ ہے، اس دریا کے چاک شدہ سینے سے تند اور رواں موجوں کی طرح اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو -


ایں نکتہ کشائندۂ اسرارِ نہاں است
ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ رواں است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربطِ تن و جاں است
با خرقہ و سجّادہ و شمشیر و سناں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز


یہ بات چھپے ہوئے بھیدوں کو کھولنے والی ہے (غور سے سن)، تیرا خاکی جسم اگر ملک ہے تو دین اسکی جان اور روحِ رواں اور اس پر حکمراں ہے، جسم اور جان اگر زندہ ہیں تو وہ جسم اور جان کے ربط ہی سے زندہ ہیں، لہذا خرقہ و سجادہ و شمشیر و تلوار کے ساتھ (یعنی صوفی، زاہد اور سپاہی) اٹھ، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند میں ڈوبے ہوئے اٹھ۔

 

ناموسِ ازَل را تو امینی، تو امینی
دارائے جہاں را، تُو یَساری تُو یَمینی
اے بندۂ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش و از دیرِ گماں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز


ازل کی ناموس کا تو ہی امانت دار ہے، جہان کے رکھوالے کا تو ہی دایاں اور بایاں (خلیفہ) ہے، اے مٹی کے انسان تو ہی زمان ہے اور تو ہی مکان ہے۔ (یعنی ان کا حکمران ہے)

تو یقین کے پیمانے سے شراب پی اور وہم و گمان و بے یقینی کے بت کدے سے اٹھ کھڑا ہو، گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو۔

 

فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز


فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے۔

کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو

اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔

 

بشکریہ: صریرِ خامہِ وارث

متعلقہ عنوانات