مفکر پاکستان کا پاکستان:مسافت ابھی باقی ہے

آج نومبر کی شام سرد سی شام میں وہ خود کو بہت تنہا محسوس کر رہا تھا۔ اس کا انگ انگ تھکاوٹ سے چور تھا۔ یہ تھکاوٹ لگاتار محنت کی تھی نہ ہی بڑھاپے کی نشانی تھی بلکہ یہ تھکاوٹ مایوسی کی تھی، یہ تھکاوٹ اپنے مقصد کو نہ پانے کی تھی وہ مقاصد جو اس کے لیے آکسیجن تھے ۔

یہ ماہ اس کے لیے خاص تھا کہ اس کا محسن اسی ماہ پیدا ہوا تھا ۔اس لیے ہر سال نومبراس کے لیے بہت خاص ہوتا وہ اپنے محسن کو بے پناہ یاد کرتا۔آج بھی اسے یاد تھا جب پہلی بار اس کے محسن نے اسے وجود میں لانے کے لیے اس کا نام ایک خیال کی صورت پیش کیا ۔جو کہ واقعی ایک فکر انگیز خیال تھا جس کے ساتھ ایک عظیم ہستی کا نام جڑا تھا کہ اس عظیم ہستی کی عبادت کے لیے اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے لیے اس کا وجود ناگزیر تھا تا کہ مسلمان اطمینان سے رہ سکیں اور معاشرے کو اللہ و رسولﷺ کی اطاعت میں ایک پرامن اور اعلیٰ اخلاقیات پر منبی معاشرہ قائم کر کے ایک مثال بنائیں جسے دیکھ کر سب اللہ و رسولﷺ کو اور ان کی تعلیمات کو جان لیں اور خود بخود ان سے محبت میں مبتلا ہو جائیں۔یہ چھوٹا سا فلسفہ تھا جواسے یعنی پاکستان کو حیات دینے کی وجہ بنا۔
یہی مقصدِ حیات اور حیات دینے والے کا لقب "مفکرِ پاکستان" جو خود اسی کے نام پہ رکھا گیا تھا پاکستان کو ہمیشہ فخر میں مبتلا کر دیتا اور اسے ایک خوشی کا احساس دلاتا۔ہر بار یہ سب سوچتے وہ فخر محسوس کرتا کہ وہ وجود میں لایا گیا مگر آج وہ بے پناہ اداس تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کیا میں وہی پاکستان ہوں جس کا خیال میرے محسن نے دیا۔ اللہ کا وہ عزیز بندہ جس نے اسلام کی محبت میں مجھے بنانے کا تصور دیا۔ وہ بندہ جو خیال دے کر پیچھے نہیں ہٹ گیا بلکہ اس نے اپنی شاعری سے میری بنیاد، میر ےمقصدِ تخلیق ہر ہر مسلمان کے دل میں اجاگر کر دیا۔ کیا مجھ میں بسنے والوں کے دلوں میں بھی میری تخلیق کا مقصد واضح ہے؟
اس نے اپنے اندر جھانکا ۔کہ شاید کوئی امید کی کرن نظر آئے جو اس کی اداسی بھری تھکاوٹ کو ختم کر دے۔ اس کی نظرتاجروں کے ایک گروپ پہ پڑی وہ لوگ بہت عمدہ سامان لیے بیٹھے تھے۔ مگر وہ جانتا تھا یہ عمدہ سامان صرف اوپر رکھا گیا ہے نیچے خراب سامان ہے جسے گاہک کو دیتے وقت عمدہ سامان سے بدل دیا جائے گا۔ حالانکہ جس کی اطاعت کی خاطر اسے وجود میں لایا گیا اس نے توسختی سے ایسی دھوکا دہی سے منع فرمایا ہے۔ ایک سرد آہ اس کے دل سے نکلی، اس نے دوسری طرف نگاہ دوڑائی وہاں لوگوں سے بھری ایک بس تھی جو اچانک بچہ سامنے آنے کی وجہ سے اسے بچاتے الٹ گئی۔ اسی منظر کے ساتھ دور سے دوڑتے ہوئے لوگ دکھائی دئیے جو بس والوں کی مدد کرنے بھاگے آ رہے تھے۔وہ خوش ہوا ذرا دیر پہلے والی اداسی ایک د م خوشگواریت میں بدلنے لگی ۔ مگر اگلے ہی لمحے اسے جھٹکا لگا کہ ان آنے والوں نے بس سے لوگوں کو نکالا اور ساتھ ہی ان کا سامان اپنے قبضے میں کر لیا۔ عجیب لوٹ مار تھی جو پہلے سے لٹے مسافروں سے کی جا رہی تھی۔ اس کا دل کراہا ۔ کاش وہ ایسے لوگوں کو جھنجھوڑ کر انہیں انسانیت یاد دلائے جو کہ اس کو تخلیق کرنے کا مقصدتھا۔
ابھی وہ اپنی بے بسی پہ نالاں ہوا ہی تھا کہ اسے ایک شخص کی آواز آئی جو نرم لہجہ لیے لوگوں کو ان کا مقصدِ حیات یاد دلا رہا تھا، انہیں اخلاقیات سکھا رہا تھا۔ یہ سن کر پاکستان نے لمبی سانس اندر کو کھینچی جیسے اسے آکسیجن ملی ہو اور وہ اسے اندر اتار لینا چاہتا ہو۔واقعی یہ ا س کی آکسیجن ہی تھی وہ سوچ رہا تھا اگر یہ سب اخلاقیات سیکھ جائیں تو کتنا ہی عمدہ ہو میرے جینےکا ذریعہ بن جائے اور مجھے عمرِ طویل مل جائے ۔ وہ سوچتے ہوئے اس جماعت کو دیکھ رہا تھا جو سب ہمہ تن گوش تھے ۔ بیان کرنے والے کی ہر بات کو سن رہے تھے سراہ رہے تھے اور پاکستان کے لیے سانس لینا آسان سے آسان تر بنا رہے تھے۔ یہاں تک کہ یہ محفل آئندہ عمل کرنے کے وعدوں پہ ختم ہو گئی۔ مگر پاکستان کی نظر مقرر کے پیچھے تھی ، اس کا انداز اور اس کی باتیں پاکستان کے دل میں پیوست ہو گئیں تھیں۔ اب وہ کچھ لمحے اس شخص کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا اس لیے اسی کو فالو کرنے لگا۔ مقرر محفل سے گھر کی طرف گیا مگر یہ کیا؟ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ شگفتہ چہرہ ایک پتھر میں بدل گیا۔ماں جو کب سے اس کا رستہ دیکھ رہی تھی اسےدیکھتے ہی پکاری مگر مقرر نے اس کا حال تک نہ پوچھا اور سیدھا کمرے میں گھس گیا ۔ اسے اپنے کل کے لیکچر کے لیے اخلاقیات پہ نوٹس تیار کرنے تھے ابھی اس نے پہلی کتاب "سیرتِ سرورِ عالم " اٹھائی ہی تھی کہ اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ شاید کچھ پوچھنا چاہتی تھی اس نے ابھی زبان کھولی کہ مقرر کی زبان سے گالیوں، طعنوں اور لعنتوں کا ایک سیلاب جاری ہوا۔ وہ جو لوگوں کو بیوی سے حسنِ سلوک کا درس دے کر آرہاتھا اب بیوی کو بے وجہ سنا رہا تھا ، اسے اللہ کی طرف سے عذاب قراردے رہا تھا۔اس کے ماں باپ کو گالیاں دے رہا تھا۔ پاکستان کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہنےلگے اس سے یہ منظر دیکھا نہ گیا وہ جو مقرر کا احسان مند ہو چلا تھا اب اسی کی وجہ سےدکھتے دل کے ساتھ اپنی ناقدری پہ ماتم کناں تھا اس مقرر نے تو باقی سب کو بھی مات دے دی ۔اس کے ذہن میں اپنے محسن کا شعر گونجا
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
شام گہری رات میں ڈھل چکی تھی شاید یہ رات واقعی رات تھی کہ پاکستان کو اس میں اپنے لیے کوئی روشنی، کوئی کرن نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ انہی لوگوں کو یاد کر رہا تھا جنہوں نے خود اپنے تزکیہ کی طرف سب سے پہلے توجہ کی۔ وہ جنہوں نے خود سے بڑھ کر دوسروں کے لیے سوچا ۔ وہ جو دوسرے مذاہب کے ساتھ رہ کر مشکل حالات میں بھی ایمانداری سے کام کرتے رہے۔ آج نومبر میں کرب میں مبتلا وہ پھر کسی اقبال کی پیدائش کا منتظر تھا جو لوگوں کا خون گرمائے ۔ اسی خواہش کو دل میں لیے وہ اللہ کے آگے گڑگڑانے لگا، فریاد کرنے لگا، آنسوؤں سے (جو آکسیجن کی کمی کے باعث رک نہیں رہے تھے) اپنے لیے آکسیجن مانگنے لگا۔
اے اللہ! اقبال کو پھر سے پیدا کر جو اس چھوٹی سی جماعت کو خوابِ غفلت سے جگائے جو میرا مقصدِ حیات سب کو سمجھائے، تا کہ اخلاقیات عام ہو جائیں اور منافقانہ روش ختم ہو جائے اور دنیا کہہ اٹھے
سلا م ان پہ تہہ تیغ جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
اے اللہ ! پھر سے مفکر ِ پاکستان پیدا کر۔ جو لوگوں کے دلوں میں عشقِ الہی جگائے جو آتشِ عشق رسول جگائے جو ہر نفس کو تزکیہ پہ ابھارے
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لئے اب صلاح کار کی راہ
اے اللہ! مجھے پھر سے اپنا وہ عزیز لوٹا دے جو ان لوگوں کو خواہشِ نفس سے آزاد ہو کر اللہ کی قربت کا درس دے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اے اللہ! پھر سے اس قوم کو انہی میں سے اقبال دے جو نفس میں ڈوبے لوگوں کو ان کا اصل ، ان کی خصوصیات یاد دلائے کہ وہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کر لیں جو گفتار میں عظیم ہو ں تو کردار میں عظیم تر، جنہیں دیکھ کر میں سارے جہان سے کہوں
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
اے اللہ!پھر سے اقبال دےجو عوام کی طرح خواص (امیرِ آشیانہ،امیرِ جماعت، امیرِ سلطنت ) کو بھی ذمہ داریاں اور خصوصیات بتائے
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
پاکستان سجدے میں گرا تھا، گڑگڑا رہا تھا، ضرورتِ اقبال کےپیشِ نظر اللہ سے مسلسل دعا گو تھا ۔
آئیے ہم بھی پاکستان کا ساتھ دیں اسے آکسیجن مہیا کریں۔ دوسروں کے تزکیہ سے پہلے خود اپنا تزکیہ کریں۔ آئیے رشوت ، سود، بے ایمانی و بداخلاقی سے خود کو دور کر لیں ۔ تا کہ ہمارے پاکستان کو ہم پہ فخر ہو۔آئیے مظلوموں، بے کسوں، یتیموں اور مسکینوں کا حق ضبط کرنا چھوڑ دیں تا کہ پاکستان خون کے آنسو نہ روئے۔ آئیے ایک دوسرے کی بحیثیت انسان عزت کریں، ہر رشتہ کو اس کے حقوق دیں تا کہ پاکستان کا دم نہ گھٹے۔آئیے دوسروں کی مدد کریں، دوسروں کو معاف کریں ، دوسروں کی غلطیوں اور خرابیوں کو نظر انداز کریں تا کہ پاکستان کے آنسو رک جائیں۔آئیے مفکرِ پاکستان کی سوچ کو سمجھیں اور اخلاقیات کو اپنے فعل و عمل سے عام کر دیں تا کہ پاکستان کبھی خود سے شرمندہ ہو کر یہ نہ پوچھے کیا میں ہوں مفکرِ پاکستان کا پاکستان؟آئیے اپنے پیارے پاکستان کو مایوسی سے بچائیں کہ اس کے پیارے محسن نے کہا تھا
نا امید نہ ہو ان کی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقیؔ