خودی جلوہ بد مست و خلوت پسند

اقبال کے حوالے سے ایک  مغالطہ یہ بھی ہے کہ وہ بس شعر کہتے تھے اور دوستوں کے ساتھ گپیں لگاتے تھے۔ کوئی متحرک یا عملی آدمی نا تھے۔

 

اقبال نے بعض  اشعار میں عاجزی کے اظہار اور اپنے آپ سے تجاہلِ عارفانہ کی بنیاد پر یہ ضرور کہا ہے کہ

اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو  بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

 

یا

 

دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا

یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا

 

لیکن یہ صرف  اشعار ہیں۔ کوئی معروضی حقیقت نہیں۔

یہ درست ہے کہ اقبال کی طبعیت میں ہر سوچنے سمجھنے والے آدمی کی طرح کچھ سُستی پائی جاتی تھی۔ بالخصوص ملنے ملانے، دعوت و تقریبات وغیرہ میں جانے سے ان کی جان جاتی تھی اور وہ تیار ہوتے ہوئے ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے۔ وہ کوئی پارٹی پرسن نہیں تھے بلکہ جیسا کہ اکثر آرٹسٹ  اندروں بیں ہوتے ہیں، اسی طرح گھر رہنا پسند کرتے تھے۔ ان کے کالج کے زمانے کے ہاسٹل میٹس کا بھی کہنا ہے کہ وہ دوسرے لڑکوں کی طرح  کبھی کسی کے کمرے میں نہ جاتے بلکہ اپنے کمرے میں چوکڑی مار کر بیٹھے رہتے اور دیگر لڑکے ہمیشہ ان کی طرف کھنچے آتے۔ اقبال کا دور مشاعروں کے عروج کا دور تھا اور جگر مراد آبادی و فانی بدایونی جیسے شعراء، مشاعروں سے بہت  کچھ داد کماتے تھے۔ لیکن اقبال انجمنِ حمایت اسلام کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے سوا کبھی مشاعروں میں نہیں  جاتے تھے۔

لیکن اس ساری سستی یا اندروں بینی یا قطبی شخصیت کے باوجود

وہ ایک استاد تھے جن کے شاگرد کیمبرج سے لاہور لاہور سے علی گڑھ، علی گڑھ سے مدراس تک پھیلے تھے۔

پھر ایک کامیاب وکیل رہے اور بے شمار لوگوں کو انصاف دلوایا۔ حتیٰ کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے لیے نامزد ہوتے رہے لیکن ہمیشہ حکومت مخالف سیاسی بیانات کی وجہ سے رہ جاتے۔

وہ سیاست دان بھی تھے۔ نا صرف لمبے عرصے تک پنجاب جیسے بڑے مسلم صوبے کی مسلم لیگ کے صدر رہے بلکہ لاہور جیسے شہر سے دو کانٹے کے الیکشن لڑے اور جیتے ۔۔۔ پنجاب اسمبلی میں بجٹ سے زرعی اصلاحات تک، مختلف موضوعات پر ان کی تحقیق پر مبنی تقاریر کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور جو بل انہوں نے پیش اور منظور کروائے وہ بھی موجود ہیں۔

سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلستان، مصر، فلسطین، افغانستان اور برٹش انڈیا کے طول و عرض کے اسفار اور اعلیٰ سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور عالمی کانفرنسز میں شرکت ۔۔۔ اس دور میں جب ہوائی جہاز عام نہیں تھے ۔۔۔ یہ بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ کابل یونیورسٹی کے قیام سے موتمرِ عالمِ اسلامی اور الہٰ آباد اجلاس سے گول میز کانفرنس تک ۔۔۔ اقبال کہاں کردار کے غازی نظر نہیں آتے ؟

لاہور شہر کی فلاحی سرگرمیوں اور فروغِ تعلیم کی کوششوں میں وہ ہمیشہ پہلی صف میں نظر آئے۔ اس شہر کے لیے ان کی عملی خدمات کم از کم ایک طویل مضمون کا موضوع ہیں۔

اور اس سب کے ساتھ ان کی ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پوری تین بیویاں تھیں، بہنوں کی کفالت بھی لمبے عرصے تک ذمے رہی۔ یہ امور بھی بخوبی نبھائے۔ ایک بھی طلاق نا ہوئی، کسی اولاد یا بہن نے بے توجہی کا شکوہ نا کیا۔

بڑے بڑے عملی اور بیروں بین لوگ لمبی لمبی زندگیوں میں ایک ہی کام کرتے مرجاتے ہیں۔ اقبال نے ایکیڈیمیا، تدریس، فلاحی سرگرمیاں، باقاعدہ وکالت، بھرپور انتخابی سیاست، بے تحاشا شاعری، طویل اور دقیق فلسفیانہ لیکچرز، تین بیویاں اور لمبا چوڑا خاندان ۔۔۔ سب ساٹھ سال کی مختصر زندگی میں نبھایا۔ اب بھی اگر وہ صرف گفتار کا غازی ہے تو شاید لوگوں کو اقبال   مذہبی شدت پسند دہشت گرد یا مہاتما گاندھی جیسے سیاسی  اداکار کے طور پر چاہیے۔

متعلقہ عنوانات