انسان جب سے زر کا پرستار ہو گیا

انسان جب سے زر کا پرستار ہو گیا
دنیا میں گرم قتل کا بازار ہو گیا


کیسے کہوں کہ اعلیٰ ہے اس کا حسب نسب
کم اصل کو جو آئنہ بردار ہو گیا


پھیلا رہا ہے ہاتھ رعایا کے سامنے
مجبور کیسا وقت کا مختار ہو گیا


صحبت کسی فقیر کی ملنے کی دیر تھی
گمراہ شخص صاحب کردار ہو گیا


قاتل کو مل بھی جائے سزا موت کی تو کیا
ویران تو غریب کا گھر بار ہو گیا


بٹوارا گھر کا ہوتے ہی قسمت بھی بٹ گئی
کوئی غریب اور کوئی زردار ہو گیا


جب شاعری کی شین سے واقف تلک نہیں
مخلصؔ کا پھر بھی طرہ کہ فن کار ہو گیا