ہے کون جو بتائے تمہارا ہے گھر کہاں

ہے کون جو بتائے تمہارا ہے گھر کہاں
ڈھونڈے گی تم کو شمس و قمر کی نظر کہاں


رکنا پڑے گا راہ میں اے ہم سفر کہاں
کیا جانے اپنی شام کہاں اور سحر کہاں


اے اہل کارواں یہ تمہیں ہے خبر کہاں
منزل کدھر ہے لے کے چلا راہبر کہاں


پروانہ صدقے ہونے لگا شمع پر مگر
معراج عشق کیا ہے اسے یہ خبر کہاں


اک ساتھ کہہ اٹھے ہیں سبھی بزم ناز میں
عالم میں کوئی اور سہی تو مگر کہاں


ہم کو صنم کے حسن میں حسن خدا ملا
پھر یہ بتاؤ ہم سا کوئی دیدہ ور کہاں


دیوانہ کہہ رہا ہے بگولوں کو دیکھ کر
پھرنے لگی بہار چمن چھوڑ کر کہاں


ہم تو چلیں گے ساتھ زمانے کے عمر بھر
چلتا ہے اپنے ساتھ زمانہ مگر کہاں


مخلصؔ ہوس کو چھوڑ دو میرا ہے مشورہ
دیکھا ہے آپ نے یہ شجر بارور کہاں