امتیاز غم و خوشی نہ رہا
امتیاز غم و خوشی نہ رہا
کوئی احساس زندگی نہ رہا
ہم نے اے دل تجھے بھی دیکھ لیا
اب ترا اعتبار بھی نہ رہا
ان سے کہتے خرد کا افسانہ
کیا کہیں ہم کو ہوش ہی نہ رہا
جستجو میں تری طلب میں تری
مجھ کو تیرا خیال بھی نہ رہا
خود سے رہتا ہوں بے خبر لیکن
آپ سے بے خبر کبھی نہ رہا
آپ کے بعد زندگی تو رہی
ہاں مگر لطف زندگی نہ رہا
اب تو آ جا کہ تیرے نشترؔ کو
اب ترا انتظار بھی نہ رہا