کیا بار بار ٹیکس لگا کر بھی شہباز حکومت آئی ایم ایف کو راضی کرپائے گی؟

بجٹ کے بعد پھر بجٹ بجٹ ہیں کہ آتے ہی چلے جارہے ہیں؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اینڈ پارٹی کو حکومت سے نکال کر برسراقتدار آنے والی پی ڈی ایم المعروف بھان متی کے کنبے کا بھی قسمت کچھ خاص ساتھ نہیں دے رہی۔ ایک طرف آئی ایم ایف ناراض  ہے اور دوسری طرف جس کام کے لیے یہ تشریف لائے تھے، یعنی نیب اور عدالتوں سے اپنے کیس ختم کروانے ، وہ معاملہ بھی خاصا الجھ گیا ہے۔ نہ اب حکومت چھوڑی جارہی ہے اور نہ حکومت چلائی جارہی ہے۔ ایسے ہی حالات کے لیے فارسی کا محاورہ ہے کہ نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔نہ آگے بڑھنے کے لیے راستہ سجھائی دے رہا ہے اور نہ پیچھے ہٹنے کے لیے کچھ جگہ رہ گئی ہے۔

معاشی میدان میں اب سے چند ہفتوں قبل یہ ساری جماعتیں عمران خان حکومت کی ناکامیوں کا ڈھندورا پیٹ رہی تھیں۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ جب سے آئے ہیں، آئی ایم ایف کو  راضی کرنے کے لیے عوام کی گردن  کو بار بار بل دے کر دکھارہے ہیں، اور یہ گردن ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن آئی ایم ایف صاحب ہیں کہ راضی ہو کر نہیں دے رہے۔ اس سے بہتر تو تھا کہ کسی ماہر رقاص یا رقاصہ کی خدمات مستعار لے لی جاتیں اور ’نچ کے یار منانے‘ کی کوشش کرلی جاتی۔ عوام بے چاری کی گردن تو بچ جاتی۔

Cartoon: 19 November, 2020 - Newspaper - DAWN.COM

سوچنے کی بات ویسے یہ ہے کہ اتنے کرتب دکھانے کے باوجود آئی ایم ایف اب تک کیوں راضی نہیں ہورہا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔آئی ایم ایف باندی ہے امریکہ بہادر کی، اور جب تک امریکہ بہادر ناراض ہے، آئی ایم ایف کیسے راضی ہوسکتا ہے۔؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ خان صاحب اس بات پر ناراض تھے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے انہیں فون تک نہیں کیا۔ خان صاحب تو شکوہ کرتے کرتے رخصت ہوگئے لیکن یار لوگوں کا کہنا ہے کہ  میاں شہباز شریف کو بھی بائیڈن صاحب نے کوئی لفٹ نہیں کروائی، یعنی کوئی فون نہ تار، نہ کوئی ای میل۔ گویا مسئلہ بائیڈن نہیں بلکہ امریکہ کی ناک کا ہے جس پر ، امریکی پالیسی سازوں کے مطابق ، پاکستان نے پے در پے حملے کیے اوروہ شاید کٹنے سے تو بچ گئی، لیکن زخمی بری طرح ہوگئی۔ 

گویا، آئی ایم ایف کی روزانہ پیش کی جانے والی نت نئی شرائط کے پیچھے امریکہ ہے ، یا امریکہ کی ناراضی ہے۔ ورنہ آئی ایم ایف   تو دنیا کا سب سے بڑا مہاجن ہے، اس کا تو کام ہی سود پر قرضے دینا اور اپنے لیے مزید دولت اکٹھی کرنا ہے، وہ تو  مان ہی جاتا اور خاص طور پر  جب منانے والے شہباز شریف جیسے ماہر وزیراعظم ہوں تو اسے ماننا بھی چاہیے تھا، لیکن مسئلہ اب اسے منانے کا نہیں، امریکہ کو منانے کا ہے جسے موجودہ حکومت کے مطابق تو خان صاحب ناراض کرکے گئے ہیں واقفان حال  کہتے ہیں کہ یہ ناراضی خان صاحب یا شہباز شریف سے نہیں، کسی اور سے ہے۔ شہباز شریف تو بے چارے اپنی مشہور عالم انگلی بار بار کھڑی کررہے ہیں لیکن اس سے فی الوقت کوئی جادو نہیں چل پارہا۔

Pakistan hikes fuel prices to meet IMF loan conditions | Business and  Economy | Al Jazeera

شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل یا نئی حکومت کے کارپردازان جو کرسکتے ہیں، وہ کررہے ہیں، اس سے زیادہ یہ لوگ کچھ کر بھی نہیں سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہنوز دلی دور است۔اعلانات ہورہےہیں، بجٹ کے بعد منی بجٹ نہیں بلکہ پورے پورے نئے بجٹ آرہے ہیں اور آئی ایم ایف نے جون کے آغاز میں پیش کیے جانے والے پہلے بجٹ کی ایسی تیسی پھیر کر رکھ دی ہے لیکن رانجھا پھر بھی راضی نہیں ہوا۔ پٹرول کی ماری عوام سمجھتی تھی کہ اب جان چھوٹ جائے گی، لیکن اب خبر ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر 11 فیصد سیلز ٹیکس یکم جولائی سے وصول کیا جائے گا  جبکہ  پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیاہے ۔ 

 اب بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا  گیاہے، شہباز شریف کہتے ہیں جان لگائیں گے ، آئی ایم ایف کو منائیں گے۔ بڑی صنعتوں سٹیل،سیمنٹ، شوگر، ٹیکسٹائل، آئل اینڈ گیس، آٹو انڈسٹری، ہوا بازی، فرٹیلائزر، بینکنگ، انرجی اینڈ ٹرمینل سیکٹر ٹوبیکو انڈسٹری پر سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سپر ٹیکس 4 فیصد کے حساب سے تمام شعبوں پر لگے گا جبکہ 13 صنعتی شعبوں پر چھ فیصد کے حساب سے اضافہ کر کے ان سے دس فیصد کی شرح سے یہ سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا ۔

اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ شہباز شریف صاحب کے کہنے کے مطابق سپر ٹیکس سے آئی ایم ایف راضی ہوگا یا نہیں لیکن فی الحال تو سپر ٹیکس کی خبر آتے ہی گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ تو کریش ہوگئی جبکہ عوام کی جیبیں اگلے چند ہفتوں میں کریش ہوجانے کا خطرہ ہے۔

متعلقہ عنوانات