اک درد کی لذت ہی سہی خواہش غم میں
اک درد کی لذت ہی سہی خواہش غم میں
آنکھیں ہی نہ بہہ جائیں کہیں بارش غم میں
اس گھر کی سجاوٹ تو انوکھی ہے سدا سے
دل روز اجڑتا رہا آرائش غم میں
اتنا بھی سکوں پہلے تو حاصل ہی نہیں تھا
جتنا ہے میسر ابھی آسائش غم میں
اب دوسری دنیا ہی سنور جائے گی شاید
جنت کی تمنا ہے بہت کاوش غم میں
ہاں خلق بنائے گی یہاں روز فسانے
تم ساتھ زمانے کے رہو پرسش غم میں