اک عجب ہم نے ماجرا دیکھا

اک عجب ہم نے ماجرا دیکھا
درد برداشت سے سوا دیکھا


دل بے چین کو کہاں لے جائیں
اک جہاں سے اسے لگا دیکھا


وائے اختر خدا کو بھول گئے
جب کہیں کوئی آسرا دیکھا


زہر محرومیٔ مسا چکھا
قہر مسمومیٔ صبا دیکھا


کوئی امید ہے تو غیروں سے
بارہا خود کو آزما دیکھا


پھول گلشن میں مور جنگل میں
سیم صبح و زر مسا دیکھا


نگہ‌ شوخ سرمہ سا دیکھی
دست صد طرۂ حنا دیکھا


نے سہی گر وفا نہیں دیکھی
ہم نے یاں حسن بے پنہ دیکھا


جس نے چاہا اسے خدا چاہا
جس نے دیکھا اسے خدا دیکھا