اک اہل علم سے اک نکتہ ور سے نکلا تھا

اک اہل علم سے اک نکتہ ور سے نکلا تھا
وہ عیب تھا جو متاع ہنر سے نکلا تھا


تمام عمر وہ پھر لوٹ کر نہیں آیا
نہ جانے کون سی ساعت میں گھر سے نکلا تھا


سمجھ رہے ہیں سبھی آسمان کو منزل
یہ سلسلہ مرے ذوق سفر سے نکلا تھا


وہی تو دے گیا دیوار و در کو ویرانی
جو سبزہ کل انہیں دیوار و در سے نکلا تھا


بنا دیا انہیں لفظوں نے جسم کو سورج
جو حرف حرف زبان شررؔ سے نکلا تھا