حسیں سحر کی فضا دردناک ہونے سے

حسیں سحر کی فضا دردناک ہونے سے
بچائیں کیسے تمنا کو خاک ہونے سے


ہوا جو جور و ستم حد سے بڑھ گیا ہے اب
بچائے کون شجر کو ہلاک ہونے سے


ادھورا رہ گیا میرا فسانۂ امید
ہمیشہ مسئلۂ انہماک ہونے سے


خوشی بھی کھو گئی ظلمت کے جنگلوں میں کہیں
جہاں کا پرچم اخلاص چاک ہونے سے


سمجھ لے کیسے کوئی تم کو پارسا ہو بہت
تمہارے جسم کا ملبوس پاک ہونے سے


مٹھاس لفظوں میں بڑھ جاتی اور بھی آتشؔ
زباں میں باہمی کچھ اشتراک ہونے سے