ہمارے پاس ہے حکمت نہ راز کیا کیجے
ہمارے پاس ہے حکمت نہ راز کیا کیجے
سوائے درد دل جاں گداز کیا کیجے
عنایتیں ہیں اگرچہ ہزار ہا لیکن
بنے نہ بات تو بندہ نواز کیا کیجے
نہ ضرب و تار سے رشتہ نہ دل فریبئ دم
مرے خیال کو عالم ہے ساز کیا کیجے
ز روئے فقہ جو سب سے زیادہ ہے معتوب
ہماری اس سے بھی ہے ساز باز کیا کیجے
جو جانتے ہیں نہیں جانتے نہ جانے ہیں
جو ہے عیاں یہاں وہ بھی ہے راز کیا کیجے
جہاں گزارش احوال پر ہوں تعزیریں
سوائے جرأت عرض نیاز کیا کیجے
کھلا اک عمر کی کوشش سے یہ کہ لکھا ہے
ہمارے نام نشیب و فراز کیا کیجے
برا ہو لذت تخیل کا کہ رہتی ہے
حقیقتوں میں تلاش مجاز کیا کیجے
ہزار درد ہے اور جان ناتواں میری
علاج ہے نہ گلے کا جواز کیا کیجے