ہمارا من بھی اسی میں مگن رہا ہوگا
ہمارا من بھی اسی میں مگن رہا ہوگا
اسی کا دھیان ہمیں عادتاً رہا ہوگا
وہ جس کو توڑنے کا تیرا من رہا ہوگا
قفس تھا روح کا یعنی بدن رہا ہوگا
تبھی تو خوب بہت خوب لگ رہی تھی غزل
ترے خیال کا ہی پیرہن رہا ہوگا
ادائے رسم فلک کار آخری کر کے
لباس چاند دوبارہ پہن رہا ہوگا
میں چونکتا ہی نہیں گر مجھے خبر ہوتی
وہ تیرا آنا ہی پھر دفعتاً رہا ہوگا
سنا ہے ذکر پہ میرے بہت تھا سنجیدہ
وہ ایسا ہے تو نہیں ایسا بن رہا ہوگا
شکن کھلی جو جبیں سے تو بن گئی آنسو
ہماری فکر میں کچھ خاص فن رہا ہوگا