ہم نے نزدیک بھلانے کا بھی فن رکھا تھا (ردیف .. ے)

ہم نے نزدیک بھلانے کا بھی فن رکھا تھا
ہجر میں دل کو بھی کچھ مست مگن رکھا تھا


یہ بھی سچ ہے کہ تجھے دل سے غرض تھی ہی نہیں
ورنہ تو جسم میں پیوست ہی من رکھا تھا


کب بغاوت پہ اتر آئے یہاں کون سا پھول
بس یہی سوچ کے قابو میں چمن رکھا تھا


جانتا کیسے تجھے جھانکتا اندر کیسے
تجھ کو تعویذ کے جیسے تو پہن رکھا تھا


جب نکیرین نے چاہا کہ مجھے لے جائیں
روح غائب تھی کہیں اور بدن رکھا تھا


جس کو اب پیار سے جینے کا سبب کہتے ہیں
ہم نے اس یاد کا اک نام گھٹن رکھا تھا


ہم کئی قسم کے لہجوں کے بہت قائل ہیں
ہاں مگر اپنا جو انداز سخن رکھا ہے