ہم اپنے آپ کو اتنا بدل نہیں سکتے
ہم اپنے آپ کو اتنا بدل نہیں سکتے
تمہارے کہنے سے چہرہ بدل نہیں سکتے
بدلنا چاہیں اگر کیا بدل نہیں سکتے
مگر جو حال ہے دل کا بدل نہیں سکتے
تمہارے واسطے یعنی بدل چکے ہیں بہت
اب اور خود کو زیادہ بدل نہیں سکتے
عجیب لوگ ہیں دنیا بدلنا چاہتے ہیں
مگر وہ خود کو ذرا سا بدل نہیں سکتے
ڈرے ہوئے ہیں سمندر مری روانی سے
مگر وہ چاہ کے رستہ بدل نہیں سکتے
ہماری ذات کو مدت میں یہ ہوا ہے نصیب
اب اپنے جینے کا لہجہ بدل نہیں سکتے
علاوہ دکھ کے تری قسمتوں میں ہم بھی ہیں
نصیب تیرا لہٰذا بدل نہیں سکتے
وہ ایک دوجے سے آنکھیں بدلتے رہتے ہیں
جو لوگ روز کا رونا بدل نہیں سکتے
بدل رہا ہے رویہ ذرا ذرا ہی سہی
اب ایک دن میں تو سارا بدل نہیں سکتے