ہاتھ آگے کیا اور دست کرم تھام لیا

ہاتھ آگے کیا اور دست کرم تھام لیا
سر جھکا پائی تو پلکوں سے حرم تھام لیا


میں نے اس دنیا کے دستور سے باغی ہو کر
حق و انصاف و محبت کا علم تھام لیا


حق کو باطل سے ملاتے ہوئے دیکھا سب کو
کچھ نہ کچھ سچ کے بتانے کو قلم تھام لیا


ناتواں ظلم بڑھاتے ہیں یہ جانا جب سے
خود پہ اٹھتا ہوا ہر دست ستم تھام لیا


زندہ رہنے کی تمنا میں ہے مرنا مشکل
جانب دار و رسن بڑھتا قدم تھام لیا