گزشتہ شب ہمہ اوقات غرق جام رہے

گزشتہ شب ہمہ اوقات غرق جام رہے
کبھی خدا سے کبھی اس سے ہم کلام رہے


دعائے آخر شب میں اسی کو مانگا ہے
جو قتل حرف تمنا پہ شاد کام رہے


کبھی جو آئی بھی تکمیل آرزو کی گھڑی
جو ناتمام تھے قصے وہ ناتمام رہے


دئے سجے رہیں پلکوں پہ دل سلگتا رہے
وہ آئے یا کہ نہ آئے یہ التزام رہے


لہو لہو دل و جاں ہوں پر اپنے قاتل کا
شمیمؔ کچھ بھی ہو ملحوظ احترام رہے