گلستاں چھوڑتے ہیں اور صحرا چھوڑ دیتے ہیں

گلستاں چھوڑتے ہیں اور صحرا چھوڑ دیتے ہیں
ترے گھر جو نہ جائے ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں


شکن آلودہ ماتھے ہو گئے بے باک گوئی پر
چلو ایسا ہے تو حق بات کہنا چھوڑ دیتے ہیں


ملاقاتیں مسلسل ہوں مگر کھل کر نہ ہوں باتیں
ہم ایسی کیفیت میں ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں


خدا کے سامنے جب سر بہ سجدہ ہوتے ہیں ہم لوگ
ذرا سی دیر کو ہم ساری دنیا چھوڑ دیتے ہیں


ہماری تشنگی کو اب تھکن محسوس ہوتی ہے
یہی صحرا نوردی ہے تو صحرا چھوڑ دیتے ہیں


قلقؔ پیہم طنابیں ٹوٹتی جاتی ہیں رشتوں کی
اگرچہ مسئلہ کوئی الجھتا چھوڑ دیتے ہیں