گوشۂ گل ہی نہیں باغ تھا مسکن اپنا
گوشۂ گل ہی نہیں باغ تھا مسکن اپنا
جب سے آزاد ہوئے گھر ہوا مدفن اپنا
فکر و آلام کے سائے سے بہت دور تھا یہ
یاد کیونکر نہ ہمیں آئے گا بچپن اپنا
یہ زر و مال یہ دنیا کی تمنا یہ ہوس
ان میں ہر کوئی ہے تا حشر ہی دشمن اپنا
غنچہ و گل میں تبسم ہی تبسم دیکھا
ڈالی ڈالی پہ نظر آیا ہے بچپن اپنا
لطف لیتے ہوئے زخمی سے مسیحا نے کہا
قابل دید ہے ہر زخم کا جوبن اپنا
اپنے اسلاف کے اجداد بھی ہیں دفن یہاں
کیوں نہ ہو جان سے پیارا ہمیں گلشن اپنا
ہے یقیں خون شہیدوں کا ہے اس مٹی میں
تب ہی خوشبو سے بھرا پھولوں نے دامن اپنا
ہم بھی افلاک نشینوں میں ہیں شامل مخلصؔ
کیوں نہ چمکے گا ستاروں کی طرح فن اپنا