بجٹ 2022-23 میں تنخواہ دار طبقے کے لیے خوش خبری

ہر سال جب بھی نئے معاشی سال کے بجٹ کا اعلان ہوتا ہے تو ہر شخص کی نظر اپنے لیے مراعات اور رعایت کو تلاش کررہی ہوتی ہے۔ سوسائٹی کے دو قسم کے افراد کو اس بجٹ سے زیادہ امیدیں ہوتی ہیں ایک عام آدمی یعنی نچلا طبقہ اور دوسرا تنخواہ دار طبقہ۔ عام آدمی کو اس سے غرض ہوتی ہے کہ حکومت ان کے لیے اشیائے خورونوش، تعلیم و صحت کی سہولیات اور مہگائی کو کم کرنے کے لیے کیا وعدے کرتی ہے۔ جبکہ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس میں چھوٹ، تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات کا متلاشی ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ آئندہ آنے والے سال کی معاشی منصوبہ بندی ہوتی ہے، ہر حکومت اسے اپنے تیئیں عوام دوست بجٹ کا نعرہ لگاتی ہے اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کی نوید سناتی ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ بجٹ صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ اور ہوائی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ بہرحال ہم تنخواہ دار طبقے کی بات کررہے تھے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا خوش خبری سنائی گئی ہے:

ٹیکس میں چھوٹ

وفاقی حکومت نے 10 جون کو مالی سال 2022-23 کا بجٹ پیش کیا۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا بجٹ تھا جس میں وزیر خزانہ نے اپوزیشن کے شور و ہنگامہ سے بے نیاز رہنے کے لیے ہیڈفون نہیں لگائے کیوں کہ اس بار اپوزیشن "پرسکون" تھی۔ خیر اس بجٹ میں جس خبر پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے وہ ہے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی ہے۔

بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ مِفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں ماہانہ ایک لاکھ روپے یعنی 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن والے افراد کو انکم ٹیکس کی ادائیگی میں مکمل رعایت ہوگی۔اگرچہ وزیر خزانہ نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سلیبز سے متعلق تفصیلات بیان نہیں کیں لیکن کابینہ کی جانب سے منظور ہونے والے فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس کی سلیبز 12کی تعداد سے کم کرکے سات کردی گئی ہے۔

اس کے مطابق چھے لاکھ روپے سالانہ آمدن تک کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا جبکہ چھے لاکھ زائد سے 12 لاکھ روپے تک آمدن والے افراد کو صرف 100 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

12 لاکھ روپے سے ایک کروڑ بیس لاکھ تک آمدن کے افراد کو سات سے تیس فیصد تک انکم ٹیکس دا کرنا ہوگا۔

آپ کی تنخواہ سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟

1۔ اگر آپ کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ تاہم اگر آمدن ایک لاکھ روپے تک ہے تو آپ کو سالانہ صرف 100 روپے انکم ٹیکس دینا ہوگا تاکہ آپ ٹیکس دینے کے عادی بن جائیں۔

2۔ ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہونے پر آپ کو 3500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، ماضی میں یہ حد 7500 روپے تھی۔

3۔ ماضی میں دو لاکھ روپے تنخواہ والے فرد کو 7000 روپے ماہانہ کے اعتبار سے 84000 روپے سالانہ ٹیکس دینا ہوگا۔

آپ اپنی تنخواہ کے مطابق مجوزہ ٹیکس معلوم کرنے کے لیے اس لنک پر کیلکیولیٹر کا استعمال کرسکتے ہیں: بشکریہ دی نیوز

آپ کی تنخواہ میں سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟

وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

حالیہ بجٹ سرکاری ملازمین کے لیے بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ مارچ 2022 میںدیے گئے 15 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں مجوموعی طور پر تیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

بنیادی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ سرکاری ملازمین کا ایک ایڈہاک الاؤنسز بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے کا دیرینہ مطالبہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس طرح پانچ برس بعد بنیادوں تنخواہوں پر نظرثانی (ری وائز) کی جارہی ہے۔ البتہ آئندہ مالی سال میں 15 فیصد ایڈہاک الاؤنس 2017 کی بنیادی تنخواہ دیا جائے گا اور بعد میں 2017 تا 2021 کے ایڈہاک الاؤنسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جائے گا۔

صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی بجٹ میں بھی سرکاری ملازمین کی مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 15 فیصد ایڈہاک اضافہ کیا ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں بھی متوقع طور پر وفاقی حکومت کے فیصلے کی تائید کی ہے۔

 یاد رہے کہ پنجاب میں صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2022-23 کل یعنی 13 جون کو پیش ہونا تھا لیکن متوقع طور پر آج پیش کیا جائے گا۔ سندھ نے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور خیبرپختونخوا نے 16 فیصد اضافہ تجویز کیا ہے۔

کیا آئی ایم ایف کی پرسنل ٹیکس کی شرط مان لی گئی؟

یاد رہے کہ  گزشتہ حکومت کے ساتھ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے میں پرسنل انکم ٹیکس کی اصلاحات کو لازمی قرار دیا گیا۔پرسنل انکم ٹیکس اصلاحات سے مراد یعنی تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ تاہم بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے 130 سے 150 ارب روپے اضافی جمع کرنے کا کہا گیا تھا لیکن حکومت نے سیلز ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنے پر رضا مندی کا اظہار کرکے یہ مطالبہ قبول نہیں کیا۔

کیا تنخواہ دار طبقہ اس بجٹ سے خوش ہے؟

مجموعی طور پر تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ اور تنخواہوں میں اضافے سے سرکاری ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ پیٹرول اور بجلی میں اضافے سے عام آدمی کی طرح تنخواہ دار طبقے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ بجلی کا بل اور پیٹرول کے اضافے خرچے کے علاوہ اشیائے خورونوش بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ سبسڈیز ختم کرنے سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ حکومت نے چالیس ہزار کم آمدن والے کو ایک سکیم کے تحت ایک کروڑ سے زائد افراد کو ماہانہ دو ہزار اعزازی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے بھی ایک حد تک فرق پڑے گا۔ لیکن اگر حکومت یہ امداد یوٹیلٹی سٹور کے ذریعے سبسڈی دے کر فراہم کرے تو اس کا زیادہ فائدہ ہوگا۔

متعلقہ عنوانات