گھٹاؤں سے جب بھی ملاقات ہوگی
گھٹاؤں سے جب بھی ملاقات ہوگی
سمندر کے دکھ درد کی بات ہوگی
بتا اے فلک کب سلگتی زمیں پر
گھٹاؤں کی چشم عنایات ہوگی
سکون جگر تم کسی سے نہ مانگو
یہ دولت ملی بھی تو خیرات ہوگی
اگر زخم دل پر لگاؤ گے مرہم
نہ گرجے گا بادل نہ برسات ہوگی
خبر کیا تھی مٹ جائے گی آدمیت
کہیں نسل ہوگی کہیں ذات ہوگی
ستاروں سے یہ کام ممکن نہیں ہے
چراغوں سے طوفان کی مات ہوگی
سبھی بادلوں کے خزانے ہیں خالی
قمرؔ کیسے اس سال برسات ہوگی