جیو انجینئرنگ ؛ آسمانی وزمینی آفات سے تحفظ کیونکرممکن بنایا جاسکتا ہے؟

موسمیاتی تبدیلی اور عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) کے اثرات دنیا بھر کی پاکستان  میں بھی رونما ہورہے ہیں۔اسی وجہ سے  آج کل پاکستان کے کئی علاقے شدید بارشوں  کی وجہ سے سیلاب کی زَد میں ہیں۔ان آسمانی و زمینی آفات سے تحفظ کیونکر ممکن ہے؟ کیا ہم زمین کو گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) کے نقصان دہ اثرات سے بچاسکتے ہیں؟  زیر نظر مضمون میں ہم چند ایسے حیرت انگیز سائنسی منصوبوں کا ذکر کریں گے جن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں یا ماحولیاتی بگاڑ پر قابو پانا ممکن ہوگا۔

چند دن قبل الف یار پر " خلائی بلبلے: گرین ہاؤس ایفیکٹ کا بہترین اور موثر حل"  کے عنوان پر تحریر شائع ہوئی جس میں زمین کو عالمی تپش (گلوبل وارمنگ)سے بچانے کے لیے خلائی چھتری اور خلائی بلبلے کا تصور پیش کیا گیا تھا جن کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکنے کا پلان بنایا جا رہا ہے تاکہ زمین کے درجہ حرارت کو کم کیا جا سکے۔اس مقصد کے لیے جیو انجینئرنگ کے تحت  چند دیگر منصوبے بھی زیر غور ہیں جن کا احوال ا س مضمون میں پیش کیا جا رہا ہے۔

جیو انجینئرنگ کیا ہے؟

بات آگے بڑھانے سے پہلے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیو انجینئرنگ کیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کو گزشتہ کچھ ہی عرصے سے اہمیت دی جانے لگی ہے اور اب یہ بات وسیع پیمانے پر تسلیم کی جانے لگی ہے عالمی تپش میں اضافہ اور گرین ہاس گیسوں کا بڑھتاہواارتکاز واقعی حقیقی خطرات ہیں۔  اس لیے اب حقیقتاََ ایسے جناتی منصوبوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے جوہماری  صنعتی ترقی کو رواں دواں رکھتے ہوئے ، ماحول کو دوبارہ پاک صاف بناسکیں اور ان کا حلقہ اثر بھی اتنا وسیع ہو کہ وہ کسی ایک ملک کے لئے نہیں، بلکہ پورے کرہ ارض کے لئے مفید ثابت ہوسکیں۔  زمین کے ماحولیاتی بگاڑ کو دور کرنے کے ان عظیم منصوبوں کو مجموعی طورپر ”جیوانجینئرنگ“ کا نام دیاگیاہے۔اپنی خصوصیات کے اعتبار سے یہ نام خاصاموزوں بھی ہے کیونکہ جیوانجینئرنگ کے ذریعے پورے کرہ ارض کے ماحول کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جیوانجینئرنگ زمین کے ماحول میں پیداہونے والے بگاڑمیں بڑے پیمانے پرکمی کرنے کے عظیم الشان اور اچھوتے منصوبوں کامجموعہ ہے تاکہ زمین کے ماحول کو انسانی رہائش کے لئے زیادہ سے زیادہ موزوں بنایاجاسکے۔ یہ اصطلاح دراصل ماحول پرانسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیداہونے والی منفی تبدیلیوں کوختم کرنے کی تجاویزاورمنصوبوں کے لئے وضع کی گئی ہے۔

  جیوانجینئرنگ کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟

 جیوانجینئرنگ کے لئے بہت سے منصوبے تجویز کئے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کا سب سے اہم مقصد دوبنیادی اہداف کا حصول ہے۔

 الف: سورج کی خطرناک شعاعوں سے تحفظ ۔ (Solar Radiation Management

 ب : گرین ہاس گیسوں (خصوصاََ کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیتھین)کے ارتکازمیں کمی کرنا۔

 ان اہداف کے حصول کے لئے ماہرین ماحولیات نے جو اچھوتے منصوبے ترتیب دئیے ہیں، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

جیوانجینئرنگ کے مجوزہ منصوبے

(الف)  سورج کی شعاعوں سے تحفظ

          زمین کو سورج کی شعاعوں سے  محفوظ رکھنے کے لیے سولر شیلڈ اور خلائی بلبلوں کا احوال تو آپ مذکورہ مضمون میں جان چکے ہیں۔ اب ہم کچھ دیگر منصوبوں کا ذکر کریں گے۔

مزید پڑھیے:خلائی بلبلے: گرین ہاؤس ایفیکٹ کا بہترین اور موثر حل

 مصنوعی بادل

 ہماری زمین کا تقریباَ َ25فیصدحصہ قدرتی طورپر ہروقت بادلوں سے ڈھکارہتا ہے، جن سے سورج کی شعاعوں کی ایک بڑی مقدار منعکس ہوکرواپس خلا میں پہنچ جاتی ہے اور ہماری زمین اس اضافی حرارت سے محفوظ رہتی ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین نے ایک ایسی تکنیک وضع کرنے کا پروگرام بنایاہے جس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ سفیدمصنوعی بادل پیداکئے جاسکیں، تاکہ زمین تک پہنچنے والی سورج کی شعاعوں میں مزید کمی لائی جاسکے۔

            امریکہ کے اسٹیفن سالٹراوریونیورسٹی آف مانچسٹر کے جان لیتھم نے سمندر میں تےرنے والے ایسے کَشتی نما نمونے تیار کئےہیں جو سمندر کے پانی کو بہت زیادہ تیزی سے بخارات میں تبدیل کرکے فضامیں بکھیر سکیں گے۔ جان لیتھم نے جو ابتدائی نمونے تیار کئے ہیں ، وہ ایک سیکنڈ میں دس کلوگرام تک پانی کو فضا میں سپرے کرسکتے ہیں۔ماہرین کو امید ہےکہ یہ سفید مصنوعی بادل سورج کی گرم شعاعوں کی ایک بڑی مقدار کو زمین تک پہنچتے سے روک سکیں گے جس سے عالمی تپش میں خاطرخواہ کمی ہوگی۔

(ب) گرین ہائوس گیسوں کے ارتکازمیں کمی کرنے کے منصوبے

 گرین ہاس گیسیں زمین کا درجہ حرارت بڑھانے میں نہایت اہم کردار اداکرتی ہیں۔بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کی بدولت فضا میں ان گیسوں کے ارتکاز میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کے لئے کئی تجاویز پیش کی گئیں لیکن صنعتی ممالک نے ان تجاویز کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ایسے حالات میں یہی تجویز قابل قبول ہوسکتی ہے کہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہی کسی طرح کشید کرکے زیر زمین دفن کیا جائے۔فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈکے انجذاب کے لئے بھی جیوانجینئرنگ کے ماہرین کے پاس کئی وسیع الاثرمنصوبے ہیں جو زمین کا درجہ حرارت کم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  مصنوعی درخت

 یہ جیوانجینئرنگ کا شاید سب سے زیادہ قابل قبول اور غیرمتنازعہ منصوبہ ہے۔عام درختوں کی نسبت ، ان درختوں کی مددسے کاربن ڈائی آکسائیڈکوفضامیں سے زیادہ تیزی سےجذب کیا جاسکے گا، جسے بعدازاں زیرزمین دفن کیاجائے گا۔

اس منصوبے کی راہ میں اب تک کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ فضا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈکوجذب کرنا خاصا مہنگا سودا تھا۔ایک اندازے کے مطابق،فضامیں سے ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈجذب کرنے پر 1000ڈالر تک لاگت آتی تھی۔ تاہم گزشتہ برس کینیڈا کے ایک ماہر ماحولیات ڈیوڈ کیتھ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسے مصنوعی درخت بناسکتے ہیں جو ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈکو100سے200ڈالرکی لاگت پر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

  آئرن فرٹیلائزیشن

سمندری حیات میں "فائٹو پلینکٹن" کہلانے والے ننھے نباتات (بشمول کائی یعنی الجی ) پر مشتمل ایک وسیع جماعت کا کلیدی کردار ہے۔ یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے اپنے لئے غذا تیار کرتے ہیں، جبکہ دیگر بحری جاور انھیں بڑے پیمانے پر اپنی غذا کی حیثیت سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کرہ ارض کے تحفظ میں فائٹو پلانکٹن کا کردار کسی خاموش اور مستعد سپاہی سے کم  نہیں، تو یہ بالکل درست ہو گا۔

ماحولیاتی ماہرین گزشتہ چند برسوں سے یہ غور کر رہے ہیں کہ فائٹو پلینکٹن کی استعداد کار میں اضافہ کر کے، ان کے ذریعے فضا ئی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے عمل کو اور بھی تیز تر کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے لوہے کے باریک باریک ذرات بطور کھاد سمندر پر چھڑکنے کا ایک وسیع منصوبہ بھی زیر غور ہے۔لوہے کے یہ ذرات، فائٹو پلینکٹن کی نشوونما بہتر کرتے ہوئے ان کی تعداد میں اضافہ کریں گے، اور نتیجتاََ فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا عمل بھی تیز رفتاری سے ہمکنار ہو گا۔ اس طرح فضا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار کم ہوسکے گی۔

یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے اور کئی ماحولیاتی ماہرین کو اس پر شدید قسم کے تحفظات ہیں۔آئرن فرٹیلائزیشن کے نتیجے میں سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔کچھ ماہرین کا کہناہے کہ پلینکٹن کی پیداوارکے ذریعے فضا میں سے جذب کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ، سمندر کی تہہ میں جمع ہونے کی بجائے مردہ پلانکٹن کے ذریعے دوبارہ فضا میں شامل ہوجائے گی۔

 جیوانجینئرنگ پراعتراضات وتحفظات

            جیوانجینئرنگ کے ان تمام منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ان منصوبوں کے کئی پہلوں پرماہرین کو شدید تحفظات بھی ہیں۔مثلاََ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ان منصوبوں سے ماحول میں بہت کم مثبت تبدیلی آئے گی جبکہ ان پرآنے والی لاگت بہت زیادہ ہے۔ ذیل میں جیو انجینئرنگ پر اٹھائے جانے والے چند ام اعتراضات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے: 

 تجرباتی شہادتوں کی کمی

ماہرین کے خیال میں سولرشیلڈ، سلفرذرات اور مصنوعی بادلوں جیسے بڑے منصوبوں کے عملی اطلاق سے پہلے ان کے تکنیکی معاملات اور اثرات کی جانچ کے لئے وسیع پیمانے پرتجربات کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے ضمنی اثرات کی نشاندہی کی جاسکے۔یعنی جیوانجینئرنگ کی افادیت سے متعلق ہمارے اندازے درست بھی ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ان کا نقصان دہ ہونا بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔ گویا جیوانجینئرنگ منصوبوں کے کام کرنے یا نہ کرنے کے لئے ابھی تک کوئی تجرباتی شہادت موجود نہیں ہے۔

  کاربنی اخراج سے صرفِ نظر کا امکان 

 کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جیوانجینئرنگ منصوبے دراصل کاربن کے اخراج سے توجہ ہٹانے کے لئے سامنے لائے گئے ہیں اور ان کا مقصد محض صنعتی ممالک کو تحفظ فراہم کرناہے۔ چونکہ جیوانجینئرنگ منصوبوں کی عوامی سطح پربہت زیادہ تشہیر کی جائے گی اوراس طرح عوام کی توجہ کاربن کے بڑھتے ہوئے ارتکاز سے ہٹ جائے گی۔اس طرح صنعتی ممالک، ماحولیات کے لئے پریشان ماہرین پر جیوانجینئرنگ کی افادیت واضح کر کے کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کی تحریکوں کودباناچاہتے ہیں اورکوئلے اور تیل سے چلنے والی صنعتوں پردباکوکم کرنا چاہتے ہیں۔

 جیوانجینئرنگ بطور ہتھیار

            جیوانجینئرنگ منصوبوں کو ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔چونکہ ان منصوبوں پر زیادہ تر تحقیق اورسرمایہ کاری ترقی یافتہ اور امیر ممالک کریں گے، اس طرح وہ ان منصوبوں کو مخصوص حالات میں اپنے مذموم مقاصد میں بھی استعمال کرسکیں گے۔

            اگرچہ ایک ماحولیاتی کانفرنس میں جیوانجینئرنگ کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے لیکن بہر حال یہ امر خارج از امکان بھی قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ان منصوبوں کی مدد سے طاقتورممالک اپنے دشمن ممالک اور مقبوضہ علاقوں کے ماحول کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوجائیں گے جو کہ انتہائی خطرناک صورت حال ہوگی۔ مثال کے طورپراگر کسی علاقے میں فصل پکنے کے لئے دھوپ کی ضرورت ہوگی تو یہ طاقتور ممالک سولر شیلڈیاسلفر ذرات کی مدد سے وہاں کی دھوپ کوروک کر درجہ حرارت میں کمی پیدا کرسکیں گے جس سے اس متاثرہ علاقے کی پیداواری ضروریات اور معیشت تباہ ہوکررہ جائیں گی۔ اسی طرح مصنوعی بادلوں کو بھی دشمن علاقے میں مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے۔

            یہ منصوبے ترقی یافتہ اور سرمایہ دار ممالک کے قبضے میں ہونگے، جس کی مدد سے یہ ممالک پوری دنیا کے ماحول کو کنٹرول کرسکیں گے اوراس طرح دنیا میں ماحولیاتی بگاڑ کے ساتھ ساتھ شدید اخلاقی اور سیاسی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔مزید ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ زمین کوکب اورکتناٹھنڈا کرنا ہے اور ایسا کتنے عرصے کے لئے کرنا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک ہر معاملے میں محض اپنے مفادات کو سامنے رکیں گے اور اس طرح غریب ممالک کا استحصال ہوگا۔

 حرف آخر

            اگر ان تمام تکنیکی وقانونی مسائل پر قابو پالیا جائے تو بھی حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے،اس لیے کسی ایک ادارے، کمپنی ، یونین یا حکومت کی اس پراجارہ داری نہیں ہونی چاہےے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جیوانجینئرنگ منصوبوں کے تمام معاملات اور پہلوں کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کنٹرول کیاجائے تاکہ تمام ممالک کا مفاداور تحفظ پیش نظر رکھا جاسکے۔

متعلقہ عنوانات