غزل کے مصرع کو مصرع سے جوڑا جاتا ہے

غزل کے مصرع کو مصرع سے جوڑا جاتا ہے
تمام رات غموں کو نچوڑا جاتا ہے


پرانے جال سے باہر نکلنا مشکل ہے
اسی لیے تو روایت کو توڑا جاتا ہے


اتر گیا ہوں تو اب جیتنا ہی منزل ہے
یوں ہم سے بھی کہاں میدان چھوڑا جاتا ہے


اٹھانا پڑتا ہے پھر ہاتھ گر نہیں سدھرے
ہاں پہلی بار میں ہاتھوں کو جوڑا جاتا ہے


یہاں پہ ہندو بھی ہوں گے یہاں مسلماں بھی
یہ شاعری ہے یہاں سب کو جوڑا جاتا ہے


دکھا دیا مرے دشمن نے دوستی کر کے
غرور ٹوٹا نہیں ہے تو توڑا جاتا ہے


لکھا تھا نام جہاں تو نے خون دل سے مرا
وہیں سے عشق کے کاغذ کو موڑا جاتا ہے