گوہر نایاب کو کہتا ہے پتھر آدمی
گوہر نایاب کو کہتا ہے پتھر آدمی
پتھروں کو کہتا ہے نایاب گوہر آدمی
تم کرو یہ فیصلہ کب اس سے ملنا چاہیے
دن میں کھلتا پھول ہے شب میں ہے خنجر آدمی
میرے چہرے کو بخوبی راز یہ معلوم ہے
آدمی کب آئنہ ہے کب ہے پتھر آدمی
اپنی آنکھیں بند کرکے کرتا ہے جب بھی سفر
راستے میں کھاتا ہے ٹھوکر پے ٹھوکر آدمی
خبط کا گہرا سمندر صبر کا اونچا پہاڑ
آنکھ میں رکھتا ہے کیسا کیسا منظر آدمی
جب جلاتا ہے غریبوں کو ستم کی آگ میں
اس گھڑی ہوتا ہے سورج کے برابر آدمی
آگے ہے دلدل کی بستی پیچھے ہے شہر شرر
چھوڑ کر آخر کدھر جائے سمندر آدمی
آنے والا ہے کوئی طوفان بحر وقت میں
اپنی اپنی ناؤ کا بن جائے لنگر آدمی
آسماں کی وسعتوں سے پوچھ لے جا کر قمرؔ
کب دکھائی دیتا ہے گہرا سمندر آدمی