غم حیات لب شعلہ بار تک پہنچا
غم حیات لب شعلہ بار تک پہنچا
ہمارا ذہن حد اعتبار تک پہنچا
فسوں یہ کس کی نظر کا بہار تک پہنچا
سکوت لالہ و گل انتشار تک پہنچا
بھٹک رہا تھا جنوں رہ گزار ہستی میں
نہ جانے کب یہ خم زلف یار تک پہنچا
سب اہل بزم مرے حسن شعر تک پہنچے
مگر نہ کوئی دل سوگوار تک پہنچے
یہ کس نے چھیڑ دیا ساز آرزوئے وصال
یہ آج کون اس اجڑے دیار تک پہنچا