بلاک بسٹر ڈرامے "پری زاد"  کے مصنف ہاشم ندیم کا تازہ ترین ناول"عبداللہ 3 " کیوں پڑھیں؟

ایک عرصہ ہوا پلاک بسٹر ڈرامے 'پری زاد' کے مصنف ہاشم ندیم کا ناول 'عبداللہ 3' ایک کتاب میلے میں ایک دوست نے تحفے میں دیا۔ اس  کتاب کو سنبھال کر رکھ دیا کہ کبھی مکمل فرصت میں اسے مزے لے لے کر پڑھوں گا لیکن ایسی فرصت اس جہانِ بیقرار میں کہاں نصیب ہوتی ہے ۔۔ پچھلے ہفتے اچانک اس کتاب پر نظر پڑی تو ناچار اس کی جانب کھینچا چلا آیا ۔ سوچا چلو دیکھیں تو صحیح یہ ناول ہے کیسا۔۔۔بس یہی وہ لمحہ تھا جب اس ناول نے مجھے اپنے حصار میں لینا شروع کر دیا۔

ناول کا مرکزی کردار ساحر جو اب عبداللہ کے روحانی منصب پر فائز ہو چکا ہے اس ناول میں ایک بار پھر جیل یاترا کرتا ہوا نظر آیا ۔ اب کی بار اس پہ قتل کا الزام ہوتا ہے اور اسے سزائے موت سنا دی جاتی ہے ۔ جیل میں عبداللہ کے چھ دوست بنتے ہیں جو مل کر فرار کا منصوبہ بناتے ہیں اور ایک دوست کی قربانی کے بدلے فرار میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ باقی سارا ناول ان سب مفرور قیدیوں کی سرگزشت ہے ۔ ہاشم ندیم نے اس خوبی کے ساتھ اس ناول میں تجسّس ، سسپنس ، تھرلر اور رومانس کے رنگوں کو یکجا کیا ہے کہ کسی صفحے ، کسی پیراگراف اور کسی سطر پر قاری کی دلچسپی میں کمی نہیں ہوتی۔

مَیں نے جب حادثاتی طور پر بس اندازہ کرنے کے لیے کہ اس کیا ہے ، اس کے چند ابتدائی صفحات پڑھے تو اس کے بعد اسے چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پایا ۔پہلے اس ناول کے وقت نکالنا مشکل تھا اب اسے ختم کیے بغیر چھوڑنا محال نظر آتا تھا ۔ اگرچہ ناول میں کئی کردار ، حالات و واقعات اور نام ہاشم ندیم کے پچھلے دنوں نشر ہونے والے ڈرامے "خدا اور محبت سیزن 3" اور "رقص بسمل" سے ملتے جلتے تھے اور تاہم ناول کی کہانی کی بنت ایسی تھی کہ پڑھنے کے دوران ان پرانی سیچویشنز میں بھی نیا پن محسوس ہوتا ہے ۔ بعض ناقدین نے بہر حال اس تکرار کو ناپسندید بھی کیا ہے ۔

 

عبداللہ 3 میں ہاشم ندیم نے اتنی فل آف ایکشن کہانی کے باوجود کہیں کہیں اپنا مخصوص متصوفانہ رنگ دکھانے کی گنجائش نکال لی ہے۔ مثلاً جیل میں تبلیغ کی غرض سے گئے صوفی صاحب کا یہ خطاب دل کو چھو لینے والا ہے۔ اقتباس تھوڑا طویل ہے لیکن یہاں مکمل نقل کرنے کو جی چاہ رہا ہے:

جماعت کے امیر کا نام صوفی رحمت اللہ تھا۔ وہ زندگی کا کلیہ سمجھا رہے تھے ۔ دیکھیں جناب یوں سمجھیں زندگی ہمیں چند سکوں کی شکل میں ملتی ہے ۔ پانچ سال کا ایک سکہ ، مطلب ایک سکہ پانچ سال چلتا ہے، پانچ سال میں بچے کو اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے ۔پھر پانچ سالوں میں وہ پرائمری پاس کر کے ہائی اسکول میں آتا ہے، پھر پانچ سال بعد میٹرک، پھر پانچ سال میں گریجویشن۔۔۔ اور اگلے پانچ سال میں نوکری، شادی، گھر بار۔۔۔ اور پھر اس کی ہونے والی اولاد کے لئے پانچ سال کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے۔ پانچ سال کے سکے کا آٹھواں گرتا ہے تو بندہ چالیس کا ہو چکا ہوتا ہے۔

 

اس کے پاس بمشکل چار یا پانچ سکے ہی بچتے ہیں اور انسان ان سکوں کو بہت احتیاط سےاستعمال کرتا ہے کیونکہ زندگی کی اوسط یہاں ساٹھ یا 65 سال ہی تو ہے ۔ وہ یہ سکے عبادت ، حج، نماز روزے میں بھی لگا سکتا ہے اور کچھ نادان آخری سکے بھی فضولیات میں گنوا دیتے ہیں۔

 

کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بارہ سکے ضائع کرنے کے بعد ساٹھ کی عمر میں ہوش میں آتے ہیں مگر تب ان کے کشکول میں  صرف ایک آدھ آخری سکہ ہی پڑا ملتا ہے۔ تب ان کے ہاتھوں میں تسبیح اور زبان پر ورد ہوتا ہے ۔ پر آخری سکے کی عبادت کا وہ مول نہیں ہوتا اوپر کے دربار میں جو پانچویں، چھٹے یا ساتویں سکے کا ہو سکتا ہے۔

 تو بھائیو ۔۔۔ میری آپ سب سے یہی درخواست ہے کہ جتنے سکے ضائع ہو چکے، وہ ہوگئے پر اب جو ہیں ۔۔۔ ان سے صحیح سودا اور سامان خریدنا

نہایت خلوص ، محبت اور دل سے لکھے الفاظ!