دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے

دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے
ترے کرم کا ہمیں انتظار رہتا ہے


وہ میرے درد کو پڑھتا ہے میرے چہرے سے
نمی ہو آنکھ میں تو بے قرار رہتا ہے


اگر کبھی میں جھڑک دوں کسی سوالی کو
مرا ضمیر بہت شرمسار رہتا ہے


جب ایک فرقے کے لوگوں پہ ٹوٹتے ہیں ستم
تماش بینوں میں ہی شہریار رہتا ہے


یہ سچ ہے فون پہ بات ہوئیں مگر بیٹو
گلے لگانے کو دل بے قرار رہتا ہے


ہماری جھولی میں لعل و گہر نہیں آصفؔ
خزانہ پیار کا ہاں بے شمار رہتا ہے