ڈر
عمر کی دھوپ ڈھلنے والی ہے
زندگی شام کرنے والی ہے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
ساتھ چلنے کو کہہ رہا ہے مجھے
جانا سب کو ہے جانا ہی ہوگا
ڈر نہیں یہ کہ جانے کیا ہوگا
کس طرح روح بدن کو چھوڑے گی
اس کا مسکن بھلا کہاں ہوگا
جانے کیسا نیا مکاں ہوگا
گور میں جانے کیسی گزرے گی
ریزہ ریزہ بدن جو بکھرے گا
ڈر نہیں یہ کہ جانے کیا ہوگا
جیسی کرنی ہے ویسا کاٹوں گی
نیکیوں پر ہے اعتبار مجھے
اپنے اعمال پر بھروسہ ہے
ڈر تو بالکل نہیں ہے کیا ہوگا
ڈر تو بس صرف اتنا ہے
دور پردیس ہیں مرے پیارے
وقت رخصت وہ آ سکیں گے کیا