دھوپ سر سے گزرنے والی ہے
دھوپ سر سے گزرنے والی ہے
زندگی شام کرنے والی ہے
آج رشتوں کو جوڑ کر رکھیے
کل تو ہستی بکھرنے والی ہے
یہ جو بل کھا کے چل رہی ہے بہت
یہ ندی تو اترنے والی ہے
پھر بگولا اٹھا ہے بستی میں
پھر قیامت گزرنے والی ہے
یورش رنج و غم سے تو آصفؔ
بن کے کندن نکھرنے والی ہے