ڈور

کبھی کبھی
الجھ جاتی ہیں
ڈور
نہ کوئی سرا
نہ کوئی چھور


اکثار ڈھلنے لگتا ہے
رنگ بدلنے لگتا ہے
گرہیں کھلتی جاتی ہیں
ریشہ جلنے لگتا ہے


کھینچو تو اور الجھتی لگتی ہے
نہ ہی ٹوٹے سے سلجھتی لگتی ہے


کچھ اسی طرح
الجھ گئی ہیں
ہماری
سانسوں کی ڈور بھی