دیا جب دل تو دلبر کا گلہ کیا
دیا جب دل تو دلبر کا گلہ کیا
ستم پرور کرم نا آشنا کیا
نہ پوچھیں پوچھنے والے ہوا کیا
یہ دیکھیں اس نے دل لے کر کیا کیا
دہائی ہے شب ہجراں دہائی
قیامت کی سحر کا آسرا کیا
کہاں تک ساتھ دے ذوق نظارہ
ترے جلووں کا میرا سامنا کیا
رہی مشق ستم دل پر یوں ہی گر
تمہارا ہی مٹے گا گھر مرا کیا
یہی دو چار تنکے آشیاں کے
ملا صیاد کو اس کے سوا کیا
بتا دو واقعات طور کچھ تو
کلیم اللہ گزرا ماجرا کیا
قفس جانے سے پہلے تھا چمن میں
نشیمن باغباں میرا ہوا کیا
انہیں دل دے دیا نادیدہ افقرؔ
حجاب و غمزہ و ناز و ادا کیا