دل تڑپتا ہے مرا ہر دن سحر ہونے کے بعد
دل تڑپتا ہے مرا ہر دن سحر ہونے کے بعد
موت آ جائے نہ تیرے بن سحر ہونے کے بعد
شام تک فرصت نہ تجھ کو سانس لینے کی ملے
آ کے تکلیفیں مری تو گن سحر ہونے کے بعد
رات آئی آئے میخانے میں کافر ہو گئے
اور پھر سے بن گئے مومن سحر ہونے کے بعد
نیند تو کیا چیز آنکھیں بند بھی ہم نے نہ کی
جب وہ بولے آئیں گے لیکن سحر ہونے کے بعد
چین دل کو آنکھ کو ٹھنڈک خرد کو تازگی
نعمتیں ملنا ہے یہ ممکن سحر ہونے کے بعد
ان کے دل میں میری الفت یوں سمائی جس طرح
پھول میں خوشبو ہوئی ساکن سحر ہونے کے بعد
رات بھر اشکوں کو روکے مسکرایا تھا مگر
ہو گیا ظاہر مرا باطن سحر ہونے کے بعد
خوف آتا ہے مجھے حیدرؔ زمانے سے بہت
آ کے بن جا تو مرا ضامن سحر ہونے کے بعد