دل و دماغ کی ضد ہے کہ اپنے گھر میں رہو

دل و دماغ کی ضد ہے کہ اپنے گھر میں رہو
مزاج کہتا ہے ہر وقت اک سفر میں رہو


وجود کچھ نہ رہے صرف اس طرح ہو جاؤ
رہو تو ایسے کہ ہر لمحہ ہر نظر میں رہو


جھلس رہے ہیں کئی جسم سائبانوں میں
کس اعتبار پہ پھر سایۂ شجر میں رہو


کسی درخت سے مانگو نہ سائے کی خیرات
نبرد آزما سورج سے دوپہر میں رہو


دل شررؔ میں نہیں کچھ بھی تجربوں کے سوا
جو رہنا ہے تو تمازت بنو شرر میں رہو