دل میں حسرت کا داغ جلتا ہے
دل میں حسرت کا داغ جلتا ہے
یا حرم میں چراغ جلتا ہے
اب خرد بھی جنوں کی راہ لگی
دل تو دل ہے دماغ جلتا ہے
یاد آتی ہے آرزوؤں کی
دل کا ایک ایک داغ جلتا ہے
پھول ہیں یا دہکتے انگارے
فصل گل ہے کہ باغ جلتا ہے
یاس میں بھی یہ حوصلہ دل کا
تیرگی میں چراغ جلتا ہے
اب نشیمن کی خیر ہو یا رب
شعلۂ گل سے باغ جلتا ہے