دل کو پھر بنانے میں وقت چاہیے کچھ تو

دل کو پھر بنانے میں وقت چاہیے کچھ تو
کرچیاں اٹھانے میں وقت چاہیے کچھ تو


ساتھ وہ نہیں پل کا عمر بھر کا لگتا تھا
اس کو اب بھلانے میں وقت چاہیے کچھ تو


اس قدر نہیں آساں جتنا ہم نے سمجھا تھا
حال دل سنانے میں وقت چاہیے کچھ تو


تنکا تنکا چن چن کر ہم نے جو بنایا تھا
آشیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو


آنکھ کا سمندر سے کچھ عجیب رشتہ ہے
سیل غم بہانے میں وقت چاہیے کچھ تو


درد دل بڑھانے کو ایک لمحہ کافی ہے
درد دل گھٹانے میں وقت چاہیے کچھ تو


پھر پلٹ کے جانے کی ہم نہ رکھیں خواہش بھی
کشتیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو


زخم جو پرانے ہیں ان کو ہم رفو کر لیں
پھر فریب کھانے میں وقت چاہیے کچھ تو


جب وجود کا رشتہ حد پہ موت کی پہنچے
پار اس کے جانے میں وقت چاہیے کچھ تو